پرائیویٹ تعلیمی ادارے تین درجہ بندی میں آتے ہیں۔
  پہلا درجہ ان سکولز کا ہے جو 10000 سے زائد فیس لیتے ہیں اور یہ تمام پرائیویٹ سکولز کا بمشکل دس 1-فی صد ہی ہوتا ہے۔یہی مالکان ہی کروڑ پتی کہلواتے ہیں۔
دوسرے درجہ پہ وہ سکول ہیں جو 10000 سے کم اور 5000 سے زائد فیس لیتے ہیں 20% طلباء ان میں2- آتے ہیں اور یہ مالکان بھی کچھ خوشحال ہوتے ہیں اور ایک دو ماہ کے اخراجات یا نقصان برداشت کرنے کا حوصلہ بہت آسانی سے رکھتے ہیں اور گنجائش بھی۔
تیسرے درجہ کے سکول 5000 روپے سے کم فیس لیتے ہیں ۔ یہ طبقہ اور انکے ادارے چھوٹے ہوتے3- ہیں اور ہینڈ ٹو ماوتھ ہوتے ہیں نہ ان کا کوئی بینک بیلنس ہوتا ہے۔ جبکہ 500 فیس سے 1500 یا 2000 تک فیس والے سکولوں کے اخراجات زیادہ جبکہ تعلیمی معیار سرکاری سکولوں سے بہت بہتر ہوتا ہے لیکن ان اداروں میں کھاتے پیتے افراد کم ہی آنا پسند کرتے ہیں ۔زیادہ تر غریب طبقہ اپنے بچے داخل کرواتا ہے۔ اور یہی سکول تمام سکولز کا 60 فی صد ہوتے ہیں۔۔ان کا سورس آف انکم صرف فیس ہی ہوتا ہے۔اور ان کے متعلق ہی سب سے زیادہ زبان استعمال کی جاتی ہے۔۔یہی اسکولز سب سے زیادہ لوگوں کو رعائیت بھی دیتے ہیں اور خود شدید مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔۔
تمام اسکولز کے بجلی، گیس اور پانی کے بل کمرشل ہوتے ہیں اور دیگر کئی ٹیکس کی چکی تلے پسے ہوئے ہوتے ہیں۔
اب سُنئے 20 فی صد رعائت کی کہانی۔۔۔ 
اب چھٹیوں میں صرف کلاسز کے پنکھے ہی بند ہیں صرف بجلی گیس اور پانی کے بلوں میں ہی پانچ ،دس ہزار کم ہونا ہے۔ اور وہی پانچ دس ہزار کی بچت حکومت ہضم نہیں ہو رہی۔ ان سکولوں ایک نقصان تو یہ بھی ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے فیس فوری جمع نہیں ہو سکی جبکہ ٹیچرز کی تنخواہ سکول کا کرایہ اور دیگر اخراجات فوری ادا کرنا ہیں۔ یہ کیسے پورے ہوں گے ؟؟؟
آپ والدین فیس فوری نہیں دیں گے تو سکولز کے مالکان سمیت سٹاف کو آپ شدید مشکلات سے دوچار کریں گے۔۔ سٹاف کو فوری تنخواہیں کیسے دی جا سکیں گی۔ اسکول ملکان جن کا دوسرا کوئی ذریعہ معاش نہیں وہ گزارا کہاں سے کریں گے۔ اگر والدین سکول لگنے پر ہی فیس جمع کروائیں گے تو 2،3 مہینہ کی فیس اکٹھی کیسے کروا سکیں گے اور تب تک سکول والے اپنا گزارا کیسے کریں گے۔ جن کا سکول کے سوا کوئی اور کام ، کاروبار یا نوکری نہیں ہے ۔؟